ترے خیال سے لَو دے اٹھی ہے تنہائیشبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائیاُنھیں بھی دیکھ جِنھیں راستے میں نیند آئی
پُکار اے جرسِ کاروانِ صبحِ طرببھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی
ٹھہر گئے ہیں سرِ راہ خاک اُڑانے کومسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی
رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لئےیہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی
یہ سانحہ بھی محبّت میں بارہا گزراکہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
دلِ فسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اُٹھایہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی
میں سوتے سوتے کئ بار چونک چونک پڑاتمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی
جہاں بھی تھا کوئ فتنہ تڑپ کے جاگ اُٹھاتمام ہوش تھی مستی میں تیری انگڑائی
کھُلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھاوہ لوگ تھے، نہ وہ جلسے، نہ شہرِ رعنائی
وہ تابِ درد وہ سودائے انتظار کہاںاُنہی کے ساتھ گئ طاقتِ شکیبائی
پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصربچھڑ کے جس سے ہوئ شہر شہر رسوائی
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment