Sunday 28 April 2013

غلط تھے وعدے


غلط تھے وعدے مگر میں یقین رکھتا تھا
وہ شخص لہجہ بڑا دل نشین رکھتا تھا

ہے تار تار مرے اعتماد کا دامن
کِسے بتاؤں کہ میں بھی اِمین رکھتا تھا

اُتر گیا ہے رگوں میں مری لہُو بن کر
وہ زہر ذائقہ انگبین رکھتا تھا

گُزرنے والے نہ یُوں سرسری گُزر دل سے
مکاں شِکستہ سہی، پر مکین رکھتا تھا

وہ عقلِ کُل تھا بھلا کِس کی مانتا محسن
خیال خام پہ پُختہ یقین رکھتا تھا


محسن بھوپالی

No comments:

Post a Comment