Monday 15 April 2013

مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا



مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے
شاید اب بھی تیرا غم دل سے لگا رکھا ہو
ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید
اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو

میں نے مانا کہ وہ بیگانہ ٴپیمانِ وفا
کھو چکا ہے جو کسی اور کی رعنائی میں
شاید اب لوٹ کے نا آئے تیری محفل میں
اور کوئی دکھ نا رلائے تجھے تنہائی میں

میں نے مانا کہ شب و روز کے ہنگاموں میں
وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے رفتہ رفتہ
چاہے امید کی شامیں ہوں کہ یادوں کے چراغ
مستقل بُعد بجھا دیتا ہے رفتہ رفتہ

پھربھی ماضی کا خیال آتا ہے گاہے گاہے
مدتیں درد کی لو کم تو نہیں کر سکتیں
زخم بھر جائیں مگر داغ تو رہ جاتا ہے
دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں

یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر
تیرے پاس آئے زمانے سے کنارہ کر لے
تُو کہ معصوم بھی ہے، زُود فراموش بھی ہے
اس کی پیماں شکنی کو بھی گوارہ کر لے

اور میں جس نے تجھے اپنا مسیحا جانا
ایک دکھ اور بھی پہلے کی طرح سہہ جاؤں
جس پہ پہلے بھی کئی عہدِ وفا ٹوٹے ہیں
اسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں

No comments:

Post a Comment