عشق کیسا کہ بھروسہ بھی نہیں تھا شایداس سے میرا کوئی رشتہ بھی نہیں تھا شایدخلقتِ شہر میں جس ہار کے چرچے ہیں بہتمیں وہ بازی کبھی کھیلا بھی نہیں تھا شایدزیست کرنے کے سب آداب اُسے ازبر تھےمجھ کو مرنے کا سلیقہ بھی نہیں تھا شایدخاک اُڑاتے ہوئے بازاروں میں دیکھا سب نے... میں کبھی گھر سے نکلا بھی نہیں تھا شایداُس کی آنکھوں میں بشارت تھی نئے خوابوں کیمیں اُسے دیکھ کے چونکا بھی نہیں تھا شایدایک بادل کہ میرے نام سے منسُوب ہوامیرے صحرا میں تو برسا بھی نہیں تھا شاید
No comments:
Post a Comment