Sunday 28 April 2013

عشق کیسا کہ بھروسہ بھی نہیں


عشق کیسا کہ بھروسہ بھی نہیں تھا شاید
اس سے میرا کوئی رشتہ بھی نہیں تھا شاید

خلقتِ شہر میں جس ہار کے چرچے ہیں بہت
میں وہ بازی کبھی کھیلا بھی نہیں تھا شاید

زیست کرنے کے سب آداب اُسے ازبر تھے
مجھ کو مرنے کا سلیقہ بھی نہیں تھا شاید

خاک اُڑاتے ہوئے بازاروں میں دیکھا سب نے
... میں کبھی گھر سے نکلا بھی نہیں تھا شاید

اُس کی آنکھوں میں بشارت تھی نئے خوابوں کی
میں اُسے دیکھ کے چونکا بھی نہیں تھا شاید

ایک بادل کہ میرے نام سے منسُوب ہوا
میرے صحرا میں تو برسا بھی نہیں تھا شاید

No comments:

Post a Comment