Sunday 28 April 2013

اُداس بام ہے، دَر کاٹنے کو آتا ہے


اُداس بام ہے، دَر کاٹنے کو آتا ہے
ترے بغیر یہ گھر کاٹنے کو آتا ہے

خیالِ موسمِ گُل بھی نہیں ستمگر کو
بہار میں بھی شجر کاٹنے کو آتا ہے

فقیہہِ شہر سے اِنصاف کون مانگے گا
فقیہہِ شیر تو سَر کاٹنے کو آتا ہے

اِسی لیے تو کسانوں نے کھیت چھوڑ دیئے
کہ کوئی اور ثمر کاٹنے کو آتا ہے

ترے خیال کا آہو کہیں بھی دن میں رہے
مگر وہ رات اِدھر کاٹنے کو آتا ہے

کہا تو تھا کہ ہمیں اِس قدر بھی ڈھیل نہ دے
اب اُڑ رہے ہیں تو پَر کاٹنے کو آتا ہے

یہ کام کرتے تھے پہلے سگانِ آوارہ
بشر کو آج بشر کاٹنے کو آتا ہے

یہ اُس کی راہ نہیں ہے مگر یُونہی باقی
وہ میرے ساتھ سفر کاٹنے کو آتا ہے

باقی احمد پوری

No comments:

Post a Comment