Sunday 28 April 2013

وہ در کھلا میرے غمکدے کا



وہ در کھلا میرے غمکدے کا
وہ آ گئے میرے ملنے والے
وہ آگئی شام، اپنی راہوں میں
فرشِ افسردگی بچھانے
وہ آگئی رات چاند تاروں کو
اپنی آزردگی سنانے
وہ صبح آئی دمکتے نشتر سے
یاد کے زخم کو منانے
وہ دوپہر آئی آستیں میں
چھپائے شعلوں کے تازیانے
یہ آئے سب میرے ملنے والے
کہ جن سے دن رات واسطا ہے
پہ کون کب آیا، کب گیا ہے
نگاہ و دل کو خبر کہاں ہے
خیال سوئے وطن رواں ہے
سمندروں کی ایال تھامے
ہزار وہم وگماں سنبھالے
کئی طرح کے سوال تھامے
بیروت 80 ؁

No comments:

Post a Comment