Monday 15 April 2013

تیرے بعد یہ کیا ہوا


تیرے بعد یہ کیا ہوا ہرے آسماں کو ترس گئے
گھِرے ہم بھنور میں اس طرح کھلے بادباں کو ترس گئے

مرے شہر کے جو چراغ تھے ’انہیں آندھیوں نے بجھا دیا
چلی ایسی اب کے ہوائے دل کہ مکیں مکاں کو ترس گئے

یہ عجیب خوف و ہراس ہےکوئی دور ہے کوئی پاس ہے
وہ جو آشیاں کے تھے پاسباں وہی آشیاں کو ترس گئے

جنہیں پیار پر رہی دسترس وہی دور ہم سے ہیں اس برس
اے بہار تیری بہار میں درِ دوستاں کو ترس گئے

تھے جو کل تلک مرے آشناسبھی یار نکلے وہ بے وفا
سدا خوش رہیں مرے خوش نوا بھلے ہم زباں کو ترس گئے

وہ جو جان سےبھی عزیز تھے وہی لوگ میرے رقیب تھے
بھلا کیسے اپنے نصیب تھے کہ کہاں کہاں کو ترس گئے

نہ وہ راگ ہے نہ وہ راگنی نہ وہ چاند ہے نہ وہ چاندنی
میری خواہشوں کےجو تیر تھے وہ کڑی کماں کو ترس گئے

نہ ہی تذکرہ یہاں ہیر کا نہ ذکر مصرعہء میر کا
حسن ایسے کتنے ہی بے نوا شبِ داستاں کو ترس گئے

No comments:

Post a Comment