Monday 8 April 2013

تمہاری آنکھیں



جب بھی آتی ہیں خیالوں میں تمہاری آنکھیں
بھیگ جاتی ہیں کسی غم سے ہماری آنکھیں

ڈھل گئی شام، اندھیرے نے طنابیں گاڑیں

سو گئیں تھک کے تیرے ہجر کی ماری آنکھیں

تم میرے پاس نہیں پھر بھی تمہارا چہرہ
سوچتی رہتی ہیں یہ درد کی ماری آنکھیں

سلسلہ ٹوٹ بھی سکتا تھا بصارت کا کبھی
تھام لیتی نہ اگر آنکھ، تمہاری آنکھیں

منزلِ عشق میں ایسا بھی مقام آیا ہے
لے گئے آنکھوں کے بدلے وہ ہماری آنکھیں

شام تک پھرتی رہیں ہجر کی ماری آنکھیں
ڈھل گئی شام تو پھر رات سے ہاری آنکھیں

ہم اسی آس پہ آنکھوں کو کھلا رکھتے ہیں
لوٹ آئیں نہ کسی روز تمہاری آنکھیں

اشک ساگر بنے تحریر بنی ہے زنجیر
جب سے بچھڑی ہیں تری پیار سے پیاری آنکھیں

گاتے گاتے ہمیں اک شخص کی یاد آتی ہے
بھیگ جاتی ہیں سرِ بزم ہماری آنکھیں

جانے کیا بات ہے کیوں دیکھتی رہتی ہیں عمر
میری آنکھوں کی طرف شہر کی ساری آنکھیں


No comments:

Post a Comment