Sunday 28 April 2013

گلے ملا نہ کبھی چاند


گلے ملا نہ کبھی چاند ، بخت ایسا تھا
ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

ستارے سِسکیاں بھرتے تھے، اوس روتی تھی
فسانئہِ جگرِ لخت لخت ایسا تھا

ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے
چٹخ کے ٹوٹ گیا ، دل کا سخت ایسا تھا

یہ اور بات کہ وہ لَب تھے پھول سے نازک
کوئی نہ سہہ سکے ، لہجہ کرخت ایسا تھا

کہاں کی سَیر نہ کی تَو سنِ تخّیل پر
ہمیں تو یہ بھی سلیماں کے تخت ایسا تھا

اِدھر سے گزرا تھا مُلک سُخن کا شہزادہ
کوئ نہ جان سکا، سازو رخت ایسا تھا
شکیب جلالی

No comments:

Post a Comment