Saturday 6 April 2013

چھوٹ سکتے ہیں نہیں



چھوٹ سکتے ہیں نہیں طوفاں کی شکل سے ہم
جاؤ بس اب مل چکے کشتی سے تم ساحل سے ہم

جا رہے ہیں راہ میں کہتے ہوئے یوں دل سے ہم 
تو نہ رہ جانا کہیں اٹھیں اگر محفل سے ہم

وہ سبق آئیں ہیں لے کر اضطرابِ دل سے ہم
یاد رکھیں گے کہ اٹھتے تھے تری محفل سے ہم

اب نہ آوازِ جرس ہے اور نہ گردِ کارواں
یا تو منزل رہ گئی یا رہ گئے منزل سے ہم

روکتا تھا نا خدا کشتی کہ طوفاں آگیا
تم جہاں پر ہو بس اتنی دور تھے ساحل سے ہم

شکریہ اے قمر تک پہنچانے والو شکریہ
اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم

لاکھ کوشش کی مگر پھر بھی نکل کر ہی رہے
گھر سے یوسفؑ خلد سے آدمؑ تری محفل سے ہم

ڈب جانے کی خبر لائی تھیں موجیں تم نہ تھے
یہ گوآ ہی بھی دلا دیں گے لبِ ساحل سے ہم

شام کی باتیں سحر تک خواب میں دیکھا کیے
جیسے سچ مچ اٹھ رہے ہیں آپ کی محفل سے ہم

کیسی دریا کی شکایت کیسا طوفاں گلہ
اپنی کشتی آپ لے کر آئے تھے ساحل سے ہم

جور میں رازِ کرم طرزِ کرم میں رازِ جور 
آپ کی نظروں کو سمجھے ہیں بڑی مشکل سے ہم

وہ نہیں تو اے قمر ان کی نشانی ہی سہی 
داغِ فرقت کو لگائے پھر رہے ہیں دل سے ہم

قمر جلالوی 

No comments:

Post a Comment