گئے تھے شوق سے ہم بھی یہ دنیا دیکھنے کومِلا ہم کو ہمارا ہی تماشا دیکھنے کوکھڑے ہیں راہ چلتے لوگ کتنی خاموشی سےسڑک پر مرنے والوں کا تماشا دیکھنے کوبہت سے آئینہ خانے ہیں اس بستی میں لیکنترستی ہے ہماری آنکھ چہرہ دیکھنے کوکمانوں میں کھنچے ہیں تیر، تلواریں چمکتی ہیںذرا ٹھہرو کہاں جاتے ہو، دریا دیکھنے کوخدا نے مجھ کو بن مانگے یہ نعمت دی ہے منظرترستے ہیں بہت سے لوگ ممتا دیکھنے کو
No comments:
Post a Comment