Wednesday 10 April 2013

مِلا ہم کو ہمارا ہی تماشا دیکھنے کو



گئے تھے شوق سے ہم بھی یہ دنیا دیکھنے کو
مِلا ہم کو ہمارا ہی تماشا دیکھنے کو

کھڑے ہیں راہ چلتے لوگ کتنی خاموشی سے
سڑک پر مرنے والوں کا تماشا دیکھنے کو

بہت سے آئینہ خانے ہیں اس بستی میں لیکن
ترستی ہے ہماری آنکھ چہرہ دیکھنے کو

کمانوں میں کھنچے ہیں تیر، تلواریں چمکتی ہیں
ذرا ٹھہرو کہاں جاتے ہو، دریا دیکھنے کو

خدا نے مجھ کو بن مانگے یہ نعمت دی ہے منظر
ترستے ہیں بہت سے لوگ ممتا دیکھنے کو

No comments:

Post a Comment