Saturday 6 April 2013

توفیق بِنا دل میں ٹھکانہ نہیں مِلتا


توفیق بِنا دل میں ٹھکانہ نہیں مِلتا
نقشے کی مدد سے یہ خزانہ نہیں مِلتا

پلکوں پہ سُلگتی ہوئی نیندوں کا دھواں ہے
آنکھوں میں کوئی خواب سہانا نہیں مِلتا

مِلتی ہی نہیں اُس کو ملاقات کی راہیں
اور مجھ کو نہ مِلنے کا بہانہ نہیں مِلتا

تم جانتے ہو وقت سے بنتی نہیں میری
ضِد کس لئے کرتے ہو کہا نا، نہیں مِلتا

کیا یہ بھی کوئی رسمِ رقابت ہے کہ جس میں
تم مِلتے ہو مُجھ سے تو زمانہ نہیں مِلتا

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment