Sunday 28 April 2013

حکایتِ سفرِ



حکایتِ سفرِ عُمرِ رائیگاں سے الگ
ترے وصال کی خوشبو ہے جسم و جاں سے الگ

کہاں پڑاؤ کریں گے، کہاں پہ ٹھہریں گے
کہ تو زمیں سے جُدا اور میں آسماں سے الگ

گروہِ ابَر نے طوفان کو جگانا ہے
پھر اُس کے بعد ہوا بھی ہے بادباں سے الگ

بدل رہی ہے شب و روز کے تسلسل کو
وہ ایک آہ جو ہوتی نہیں فغاں سے الگ

ادُھورے پن کی سزا موت ہے، سو دُکھ ہے مجھے
مرا قبیلہ ہوا کیسے درمیاں سے الگ

فصیلِ شب سے قضا لے گئی اُٹھا کے سلیم
وہ اِک چراغ کہ تھا شہرِ رفتگاں سے الگ

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment