Wednesday 20 March 2013

کوئی عاشق کسی محبوبہ سے




گلشنِ یاد میں گر آج دمِ بادِ صبا
پھر سے چاہے کہ گل افشاں ہو، تو ہو جانے دو
عمرِ رفتہ کے کسی طاق پہ بسرا ہوا درد
پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو، تو ہو جانے دو
جیسے بیگانے سے اب ملتے ہو، ویسے ہی سہی
آؤ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو
گر چہ مل بیٹھیں گے ہم تم، تو ملاقات کے بعد
اپنا احساسِ زیاں اور زیادہ ہوگا
ہم سخن ہوں گے جو ہم دونوں، تو ہر بات کے بیچ
ان کہی بات کا موہوم سا پردہ ہوگا
کوئی اقرار نہ میں یاد دلاؤں گا، نہ تم
کوئ مضموں وفا کا ، نہ جفا کا ہوگا
گرد ِایّام کی تحریر کو دھونے کے لیے
تم سے گویا ہوں دمِ دید جو میری پلکیں
تم جو چاہو تو سنو، اور جو نہ چاہو، نہ سنو
اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں
تم جو چاہو تو کہو اور جو نہ چاہو نہ کہو

فیض

لندن 1978ء

No comments:

Post a Comment