Wednesday 20 March 2013

بے وفا باتیں بنا جاتا ہے کیا کیا جھوٹ سچ


بے وفا باتیں بنا جاتا ہے کیا کیا جھوٹ سچ
وصل کی امید پر سنتا ہوں صدہا جھوٹ سچ

خیر یونہیں روز کہہ جاتا ہوں مر جانے کو میں
دیکھ لینا بے مروت آج میرا جھوٹ سچ

کچھ تو ہو تسکینِ دل ظالم دمِ اقرارِ وصل
ایک دن تو اپنے منہ سے کہہ دے 'اچھا' جھوٹ سچ

پا کے موقع اب تو کچھ باتیں بھی کر لیتے ہیں وہ
رہ گیا ہے میرے اُن کے یونہیں پردا جھوٹ سچ

ہمنشیں سنتے نہ سنتے وہ بلا سے دو گھڑی
کہہ تو لیتے اُن سے کچھ دل کی تمنا جھوٹ سچ

بیٹھ کر دیر و حرم میں برہمن سے شیخ سے
عمر بھر ہم نے سنی بیکار کیا کیا جھوٹ سچ

کوئی کیا سمجھے حسینانِ جہاں کی گفتگو
سچ سراپا جھوٹ ہوتا ہے سراپا جھوٹ سچ

دشتِ غربت میں سوا ہمزاد کے اپنا ہے کون
کچھ ابھی تک دے رہا ہے ساتھ سایا جھوٹ سچ

کوئی کیا جانے جو میرے آپ کے باہم ہیں راز
کہنے دو کہتے ہیں جو کچھ اہلِ دنیا جھوٹ سچ

عمر بھر باتیں سنیں ہر شب بتِ عیار کی
پر زبانِ شمع کو آیا نہ کہنا جھوٹ سچ

انتظارِ مرگ ہے بالیں پر آ کر گاہ گاہ
نسخے لکھ جاتے ہیں خاطر سے اطبا جھوٹ سچ

رات دن جز اعتراضِ مدعی فرمائیے
کیا ملا تسلیم تم کو کہہ کے اتنا جھوٹ سچ

(امیر اللہ تسلیم لکھنوی)

No comments:

Post a Comment