Monday 25 March 2013

اِس طرح ناز سے وہ جانِ ادا بیٹھی ہے


اِس طرح ناز سے وہ جانِ ادا بیٹھی ہے
جس طرح تخت پہ بلقیسِ سبا بیٹھی ہے

تیرا چہرہ بھی اِسے پھول کے مانند لگا
ایک تتلی تری تصویر پہ آ بیٹھی ہے

کیا خبر تھی، یہ اذیّت بھی اٹھانا ہو گی
خط جلاتے ہوئے وہ ہاتھ جلا بیٹھی ہے

جانے کیا سوچ کے، وہ ہجر زدہ شہ زادی
دو پرندوں کو دریچے سے اُڑا بیٹھی ہے

حالتِ عشق میں قابو نہ رہا خود پہ اُسے
رفتہ رفتہ وہ سبھی ہوش گنوا بیٹھی ہے

یوں تو بیٹھی ہیں کئی اور حسینائیں بھی
سب میں ہوتے ہوئے، وہ سب سے جدا بیٹھی ہے

ایک مدّت سے میں گھر سے نہیں نکلا، ساحر!
ایک مدّت سے مرے در پہ قضا بیٹھی ہے
(پرویز ساحر)

No comments:

Post a Comment