Sunday 31 March 2013

کب وہ چونکے جو شرابِ عشق سے


کب وہ چونکے جو شرابِ عشق سے مستانہ ہے
شورِ محشر اس کو بہرِ خواب اِک افسانہ ہے

پھر سرِ شوریدہ پُر جوشِ جنوں دیوانہ ہے
پھر دلِ تفسیدہ پر برقِ بلا پروانہ ہے

خوب ہی چلتی ہوئی وہ نرگسِ مستانہ ہے
آشنا سے آشنا، بیگانے سے بیگانہ ہے

آتے جاتے ہیں نئے ہر روز مرغِ نامہ بر
بندہ پرور آپ کا گھر بھی کبوتر خانہ ہے

فاتحہ پڑھنے کو آیا تھا مگر وہ شمع رُو
آج میری قبر کا جو پھول ہے پروانہ ہے

درد سے بھرتے ہیں آنسو ضبط سے پیتے ہیں ہم
آنکھ کی ہے آنکھ یہ پیمانے کا پیمانہ ہے

پائے ساقی پر گرایا جب گرایا ہے مجھے
چال سے خالی کہاں یہ لغزشِ مستانہ ہے

کوہ کن کا تھا یہی پیشہ جو کاٹا تھا پہاڑ
کم مشکل جاں کنی اے ہمتِ مردانہ ہے

جب پڑا ہے وقت کوئی، ہو گئے ہیں سب الگ
دوست بھی اپنا نہیں، بیگانہ تو بیگانہ ہے

اس کے در پر جا کے ہوتا ہے گدا کو بھی یہ ناز
لوگ کہتے ہیں مزاج اس شخص کا شاہانہ ہے

مجھ کو لے جا کر کہا ناصح نے ان کے روبرو
آپ کے سر کی قسم یہ آپ کا دیوانہ ہے

اس کو دیوانہ بنا لوں تو کروں جھک کر سلام
میں تو بھولا ہوں مگر دشمن بڑا فرزانہ ہے

ہم نے دیکھا ہی نہیں خالی نحوست سے کوئی
زاہدوں کو مبارک سبحۂ صد دانہ ہے

داغ یہ ہے کوئے قاتل، مان ناداں ضد نہ کر
اٹھ یہاں سے ادھر، گھر بیٹھ، کچھ دیوانہ ہے

(داغ دہلوی)

No comments:

Post a Comment